واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت خواجہ عزیزاں علی رامتینی

رحمۃ اللہ علیہ

 

آپ بخارا سے دو میل کے فاصلے پر واقع رامیتن نامی گاؤں میں ۵۹۱ ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ  کامشہور لقب عزیزاں ہے۔ عالم و شاعر اور ولی کامل تھے۔ تصوف کے موضوع پر آپ نے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ آپکی باطنی نسبت حضرت خواجہ محمود انجیر فغوی   رحمتہ  اللہ  علیہ   سے ہے آپ ان کے خلیفہ اعظم تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ کی صحبت بابرکت میں ایسا اثر تھا کہ جلد ہی سالک روحانی ترقی حاصل کرلیتے تھے۔ آپ کے درج ذیل ملفوظات سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں۔

      مرد وہ ہے جس کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے۔ نامرد وہ ہے جو ذکر کرے مگر خدا کے لیے نہ کرے، یعنی رضائے الٰہی کے سوا کوئی اور مقصد پیش نظر رکھتا ہو“۔

”عمل کرکے اسے بھلا دینا چاہیے“۔

آپ کی مشہور رباعی ہے۔

باہر کہ نشستی ونہ شد جمع دلت

وزتو نہ رمید زحمتِ آب وگِلت

زنہار ز صحبتش گریزاں می باش

ورنہ نکند روح عزیزان بحلت

ترجمہ: جس کی صحبت کی مگر اس سے آپ کا دل مانوس نہ ہوا اور آپ سے مٹی و پانی والی اوصاف رخصت نہ ہوئیں ۔

یعنی اس کی صحبت سے اگر  اچھے اخلاق آپ کے اندر پیدا نہ ہوئےہوں تو چاہیے کہ لازمی طور پر اس کی صحبت چھوڑ دے ورنہ عزیزان علیہ الرحمۃ کی روح آپ کے ساتھ نہ ہوگی۔ مجھ سے فیض حاصل نہ کرسکو گے۔ اگر فیض حاصل کرنا ہے تو غیروں کی صحبت کو ترک کردو۔

حضرت عزیزا ں  رحمتہ  اللہ  علیہ   بہ اشارہ غیبی بخارا سے خوازم پہنچے ۔شہر کے دروازے پر پہنچ کر آپ نے دو درویشوں کو بادشاہ کی خدمت میں بھیجا کہ اگر اجازت ہو تو ہم اس شہر میں ٹھہر جائیں؟ جب درویش بادشاہ  کے دربار  پہنچے اور مدعا بیان کیا  تو بادشاہ اور ارکان سلطنت ہنس  پڑے اور کہنے لگے کہ آپ کے پیر بہت سادہ اور نادان ہیں ۔پھر ازرا ہ مذا ق  اجازت نامہ دے دیا۔درویش جب اجازت نامہ لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے شہر میں قدم رکھا اور گوشہ نشیں ہو کر  اپنی عبادات میں مشغول ہو گئے۔

آپ ہر روزصبح کے وقت مزدور گاہ سے  ایک دو مزدوروں کو اپنے مکان پر لاتے اور فرماتے  کہ پورا وضو کرو  اور نماز عصر تک باوضو ہمارے پاس رہو  اور ذکر کرو۔بعد ازاں اپنی مزدوری لے کر چلے جاؤ۔مزدور بہت خوشی سے ایسا کرتے اور آپ کی صحبت میں  رہتے۔جو مزدور ایک دن آپ کے پاس گزارتا آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی صحبت کی برکت سے اس میں یہ وصف پیدا ہو جاتا کہ وہ آپ کی جدائی گوارا نہ کرتا۔اس طرح کچھ ہی مدت میں بہت سے لوگ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے مرید بن گئے۔

رفتہ رفتہ یہ خبر بادشاہ تک پہنچی کہ شہر میں ایک فقیر آیا ہوا ہے ۔جس کے لوگ جوق در جوق مرید ہو رہے ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ اس کے سبب کوئی فتنہ و فساد پیدا ہو جائے۔بادشاہ نے اس  وہم میں پڑ کر حضرت عزیزاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے اخراج کا حکم دے دیا۔

آپ نے انہی دو درویشوں کے ہاتھ وہی اجازت نامہ بادشاہ کی خدمت میں بھیج دیا اور پیغا م  دیا کہ ہم تمہارے شہر میں تمہاری ہی اجازت سے آئے ہیں ۔اب اگر تم اپنے ہی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔اس پر بادشاہ اور ارکان سلطنت بہت شرمندہ ہوئے ۔ اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے محبین و مخلصین  میں شامل ہو گئے۔

ایک روز آپ کے ہاں ایک  عزیز مہمان آ گیا ۔آپ پریشان تھے گھر میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی ۔آپ پریشان ہو کر گھر سے نکلے ۔اچانک آپ کا ایک معتقد  لڑکا کھانے کی بھری ہوئی دیگ  سر پر اُٹھائے  ہوئے آپہنچا اور عرض کی کہ میں نے یہ کھانا آپ کے خادموں کے لیے تیار کیا تھااس کو شرف قبولیت بخشیں۔ آپ کو لڑکے کی یہ خدمت بہت پسند آئی۔ جب مہمان کھانا کھا چکےتو آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے اس لڑکے کو بلا کر کہا کہ ہم بہت خوش ہیں !مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو ۔

لڑکا بہت زیرک اور دانا تھا کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ خواجہ عزیزاں بن جاؤں۔آپ نے فرمایا۔یہ تو نہایت مشکل کام ہے ۔لڑکے نے کہا میری تو یہی تمنا ہے اس کے علاوہ کوئی آرزو نہیں ہے۔آپ نے فرمایا  کہ بالکل اسی طرح ہو جائے گا۔اس کے آپ اسے پکڑ کر جلوت سے خلوت خاص میں لے گئے۔ اس پر توجہ ڈالی اور وہ تھوڑی دیر میں  آپ کی طرح کا بن گیا ۔اس واقعہ کے بعد وہ لڑکا صرف چالیس دن زندہ رہا۔

آپ کے دو  بیٹے تھے ۔بڑے بیٹے کانام خواجہ خورد  رحمتہ  اللہ  علیہ   اور چھوٹے بیٹے کا نام خواجہ ابراہیم  رحمتہ  اللہ  علیہ   تھا۔جب آپ کا  اس دار فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب آیا تو آپ نے  خواجہ ابراہیم   رحمتہ  اللہ  علیہ   کو خلافت و اجازت فرمائی۔بعض مریدوں کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بڑے صا حبزادے کی موجودگی میں جو کہ  زیادہ عالم وعارف ہیں ۔چھوٹے کو کیوں خلیفہ بنایا گیا ہے۔آپ نے ان کے خطرے سے آگاہ ہو کر فرمایا کہ خواجہ ابراہیم   رحمتہ  اللہ  علیہ   ہمارے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے اور جلد ہمارے پاس آ جائیں گے۔چنا نچہ ایسا ہی ہوا ۔آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے وصال کے ٹھیک اُنیس زور بعد خواجہ ابراہیم   رحمتہ  اللہ  علیہ   کا بھی وصال ہو گیا۔

حضرت عزیزاں ۲۸ ذی قعد ۷۱۵ ہجری یا ۷۲۱ ہجری کو تقربیاً ایک سو تیس سال کی طویل عمر پاکر اس  جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کا مزار پرانوار ملک فارس کے شہر خوارزم میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔